امام احمد رضا بے بدل عالم دین و لاثانی محقق متین تھے۔ آپ معمولی شخصیت کے حامل نہ تھے بلکہ ان کی ذات گرامی علمی و تحقیقی عظمت کا دیو پیکر و جود تھی۔ جس نے اپنی عبقریت و آفاقیت کا اعتراف نہ صرف اپنے مداحوں سے کرایا بلکہ مخالفین کو بھی ان کی عظمت کا لوہا ماننا پڑا۔ اس حقیقت سے بھلا کون صاحب عقل انکار کر سکتاہے کہ امام احمد رضا نے علوم و فنون کے کسی خاص گوشہ پر ہی کام نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی ذہانت و لیاقت کے پھولوں سے متفرق علوم و فنون کے متعدد گوشوں کو مہکا دیا اور اسی پھول کی خوشبو سے اسلامی علوم پر مشتمل بر صغیر کا علمی سرمایہ جگمگا رہاہے ۔آپ نے اپنی گراں قدر تحقیقات سے جہاں اسلامی علوم کے ذخیرے میں معتد بہ اضافہ کیا وہیں آپ کی تحقیقات عالیہ نے اسلام کے اثبات اور اسلام مخالف نظریات کی نفی کی ۔دشمنان اسلام کے منہ بند کئے تو مخالفین کو بھی ورطئہ حیرت میں ڈال دیا ۔آپ نے جہاں ایک طرف بر صغیر کے علماء سے داد تحسین حاصل کی وہیں خود عالم عرب کے مائیہ ناز اہل علم کو بھی اپنی خداداد صلاحیت و لیاقت اور کامل ذہانت و ذکاوت کا پورا پورا احساس کرادیا۔
جن علوم و فنون میں آپ نے اپنے عظیم رشحات قلم یادگار چھوڑے ہیں انکی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ متعدد سوانح نگاروں نے انکی متفرق تعداد لکھی مگر ماہنامہ سنی دینا بریلی شریف نے جو تعداد بیان کیا ہے وہ سب سے زیادہ اہم و معتبر ہے ۔اس کے مطابق آپ کے علوم و فنون کی تعداد ستر (٧٠)ہے جس کی تفصیل اس طرح ہے۔
ــ'' آپ کو علوم درسیہ کے علاوہ علوم جدیدہ و قدیمہ پر بھی مکمل دسترس و عبور حاصل تھا ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان میں بعض علوم ایسے ہیں جن میں کسی استاد کی رہنمائی حاصل کئے بغیر اپنی خدا داد صلاحیت و ذہانت سے کمال حاصل کیا۔ ایسے تمام علوم و فنون پر امام احمد رضا محدث بریلوی کو مکمل عبور حاصل تھا ۔جدید تحقیق کے مطابق ان کی تعداد تقریبا ستر(٧٠)ہے۔ان میں کئی فنون تو ایسے ہیں کہ دور جدید کے بڑے بڑے محقق اور ماہرین علوم و فنون ان کے نام سے بھی آگاہ نہ ہوںگے''۔(ماہنامہ سنی دنیا،بریلی شریف ،بابت ماہ اگست ١٩٩٢)۔
ان موضوعات پر آپ کی گراں قدر تصانیف نے اہل بر صغیر سے تو خراج عقیدت حاصل کیا ہی خود علمائے حرمین طیبین کو بھی آپکی تصانیف کے علمی پائے اسناد کو تسلیم کرناہی پڑا۔
امام احمد رضانے جن جن موضوعات پر اپنی مایہ ناز تحقیقات اور گراں قدر تخلیقات پیش کی ہیں انہیں میں سے ایک علم حدیث بھی ھےجس میں آپکو نمایا ں وعظیم مقام و مرتبہ حاصل
تھا۔ ۔آحادیث کریمہ کا ایک بحر بیکراں آپ کے سینہ میں موجزن تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ جس موضوع پر بھی آپ کا قلم اٹھتا اسلامی مزاج اور افکار و نظریا ت کی حمایت اور کفر و بطالت کی تردید میں احادیث کریمہ کا اتنا انبار لگا دیتے کہ پڑھنے والا موافق ہو تو اس کا کلیجہ ٹھنڈا اور آنکھیں روشن ہوں اور مخالف ہو تو زبان گونگا اور دل ماننے پر مجبور ہوجائے۔ اپنے والد ماجد مولانانقی علی خان علیہ الرحمۃ اور سید شاہ آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ و حضرت سید عابد سندھی اور شیخ الاسلام حضرت علامہ زینی دحلان مفتئی مکہ مکرمہ و غیرہ سے سند حدیث کی اجازت حاصل تھی۔
امام احمد رضا کو جہاں فن حدیث سے مکمل واقفیت اور اس پر ملکئہ کاملہ حاصل تھا وہیں اسماء الرجال پر بھی کافی دسترس اور حدیث کی اصطلاحات پر بھی عبور کامل تھا۔اس فن میں آپ کے قلم حقیقت رقم سے جو تخلیقی ، تصنیفی اور تحقیقی کارنامے صادر ہوئے ہیں اس سلسلہ میں ہم یہاں سب سے پہلے مولانا محمد صابر القادری بستوی کے تصنیف کا اقتباس تحریر کرتے ہیں۔
''علم حدیث کا اندازہ اس سے کیجئے کہ جتنی حدیثیں فقہ حنفی کی ماخذ ہیں وہ ہر وقت پیش نظر رہتیں ۔ درجنوں حدیثوں سے فقہ حنفی پر بظاہر زد پڑتی اس کی روایت و دریت کی خامیاں ہر وقت از بر۔علم الحدیث میں سب سے زیادہ نازک شعبہ علم اسماء الرجال کا ہے ۔ اعلی حضرت کے سامنے کوئی سند پڑھی جاتی اور راویوں کے بارے میں دریافت کیا جاتا ہو ہر راوی کی جرح و تعدیل کے جو الفاظ فرمادیتے تھے۔ جب اٹھا کر دیکھا جا تا تو تقریب و تہذیب و تزہیت میں وہی الفاظ مل جاتا تھا۔ یحییٰ نا م کے سیکڑوں راویان حدیث ہین لیکن جس یحیٰ کے طبقے اور استاد و شاگردکا نام بتا دیا جاتا وہی حرف آخربن جاتا ۔ایسے جیسے کہ اعلی حضرت خود موجد تھے۔ کہ طبقہ و اسماء سے بتادیتے کہ راوی ثقہ ہے یا مجروح ۔ اس کو کہتے ہیں راسخ اور علم سے شغف کامل''۔(معارف رضا سلور جوبلی سالنامہ پاکستان بحوالہ مجدد الاسلام :اعلی حضرت بریلوی صفحہ ١٥١ تا ١٥٢)
اس اقتباس سے امام احمد رضا کے فن اسماء الرجال سے تعلق کا علم تو ہوتا لیکن اب ضروری ہوتاہے کہ اصول حدیث ااور اس فن میں آپ کے طریقئہ استدلال پر بھی کچھ روشنی ڈال دی جائے ۔ اس موضوع پر امام احمد رضا کے ایک نہایت اہم کتاب کانام ''منیر العین فی تقبیل الابہامین''ہے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسی کتاب کا ایک اقتباس نقل کیا جائے تاکہ آپ طرز استدلال قارئین کے سامنے آسکے۔
''یہ بات خوب یاد رکھنے کی ہے کہ صحت حدیث سے انکار نفی حسن میں بھی نص نہیں ہے جس سے قابلیت احتجاج منفی ہونا صالح و لائق اعتبار نہ ہونا نہ کہ محض باطل و موضوع جس کی طرف کسی جاہل کا بھی ذہن نہیں جائےگا صحیح و موضوع دونوں ابتداء و انتہاء کے کناروں پر واقع ہیں۔ سب سے اعلی صحیح اور سب سے بد تر موضوع اور وسط میں بہت اقسام حدیث ہے درجہ بدرجہ مرتبہ صحیح کے بعد حسن لذاتہ پھر حسن لغیرہ پھر حسن لذاتہ پھر حسن لغیرہ پھر ضعیف بضعف قریب اس حد تک کہ صلاحیت اعتبا ر باقی رہے جیسے اختلاط راوی سوئے حفظ تدلیس وغیرہا ۔اول کے تین بلکہ چاروں قسم کو ایک مذہب پر اسم ثبوت متناول ہے اور وہ سب مجتمع بہاہیں اور آخر کے قسم صالح بر متابعات و شواہد میں کام آتی ہے۔ اور جابر سے قوت پاکر حسن لغیرہ بلکہ صحیح لغیرہ ہوجاتی ہے اس وقت وہ صلاحیت احتجاج وقبول فی الاحکام کا زیور گراں بہا پہتی ہے ورنہ در بار فضائل تو آپ ہی مقبول تنہا کافی ہے۔پھر درجہ ششم میں ضعیف بضعف قوی و دہن شدید ہے ۔ جسے راوی کے فسق وغیرہ قوادح قویہ کے سبب متروک ہونا شرط کے ہنوز سرحد کذب سے جدا ہو یہ حدیث احکام میں احتجاج در کنار اعتبارکے بھی لائق نہیں ہاں فضائل میں مذہب راجح پر مطلق اور بعض کے طور پر بعد انجبار متعدد مخارج و تنوع ترک منصب قبول و عمل باقی ہے ۔ پھر درجئہ ہفتم میں مرتبئہ مطروک سے جس کا مدار و ضاع کذاب یا مہتم الکذب پر ہو یہ مد ترین اقسام ہے ۔ بلکہ بعض روایت کی رو سے مطلقا ایک اور اصطلاح پر اس کی نوع اشد یعنی جس کا مدار کذب پر ہو عین موضوع یا نظر تدقیق میں یو ں کہئے کہ ان کا اطلاق پر داخل موضوع حکمی ہے ان سب کے بعد درجئہ موضوع کا ہے یہ بالاجماع ناقابل انجبار نہ فضائل وغیرہ کسی بات میں لائق اعتبار بلکہ اسے حدیث کہنا بھی توسع و تجوز ہے ۔ حقیقتا حدیث نہیں محض محبول و افترا ہے۔''(منیر الیعن فی تقبیل الابہامین جلد دوم صفحہ نمبر ٥٢٥)
امام احمدرضاکے فن حدیث سے متعلق چند اقتباسات پیش کئے گئے ان فنون مین فاضل بریلوی کی دقت نظر اور اعلی مہارت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی ان کی تصانیف کا گہرا مطالعہ ضروری ہے ۔ اسی طرح متعدد کتب حدیث پر آپ کے نتیجئہ علم و فکر سے حواشی معرض و جود میں آئے ۔ وہ آپ کے وفور علم اور حفظ و استحظار پر شاہد و عادل ہے بلاشبہ آپ نے حدیث کے رجل واصول پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔عمیق فکر و نظر سے اگر انکا مطالعہ کیا جائے تو اس سلسلہ میں بے شمار شواہد قاری سے سامنے آئیں گے۔
امام احمد کی جہاں ایک طرف فن اسماء الرجال اور اصول حدیث پر گہری نظر تھی وہیں دوسری جانب قدرت نے ان کو حفظ کی بے پناہ قوت و قدرت مرحمت فرمائی تھی جسکا انہوں نے حفظ حدیث کے سلسلہ میں خوب خوب فیض اٹھایا ۔آپ کی اس خداداد صلاحیت کا ذکر اکژمحققین نے کیا ہے اس سلسلے میں آپ کے ایک تذکرہ نگار اس طرح رقمطراز ہیں۔
''حفظ حدیث کا غایت کمال کا مشاہدہ کرنا ہو تو ان کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے۔ ورق ورق پر احادیث و آثار کی برکتیں نجوم و کواکب کی طرح درخشندہ و تابندہ ہیں ۔ محض اپنے حافظہ کی قوت سے احادیث کا اتنا ذخیرہ کر لیا بس آپ کے لئے انعام الہی تھا ۔ جس کے لئے زبان و دل دونوں بیک وقت پکار اٹھتے ہیں ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشآئ''۔(امام احمد رضا کی محدثانہ عظمت از مولانا یسین اختر مصباحی صفحہ ١٢)
مقالے کا یہ حصہ چونکہ امام اہل سنت کی محدثانہ عظمت اور احادیث سے متعلق آپ کی خدمات و تحقیقا ت کے لئے مختص ہے اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر اس موضوع سے متعلق آپ کی گراں قدر تخلیقات و تحقیقات کا تعارف کرادیا جائے۔
فن حدیث پر مشتمل امام احمد رضا کی تخلیقات
اس موضوع پر آپ کا کام زیادہ تر عربی زبان میں اور اس میں بھی بہت کم ہی زیور طباعت سے آراستہ ہو سکا ہے۔ جیساکہ اس سلسلے میں مولانا یسین اختر مصباحی صاحب نے تحریر کیا ہے۔
''حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے کتب احادیث کے جو دقیق حواشی تحریر فر مائے ہیں وہ ابھی تک پوری طرح سے منظر ایام پر نہی آسکے ہیں ''۔(امام احمد رضا کی محدثانہ عظمت از مولانا یسین اختر مصباحی صفحہ ٨)
یہاں اس تلخ حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ اس موضوع پر امام احمد رضا کے رشحات قلم کو ابھی تک نہ تو یکجا کیا گیا ہے اور نہ ہی انہیں منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ہم نہایت تلاش و جستجو کے بعد آپ کے کچھ شاہکار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سلسلے میں مولانا عبد المجتبیٰ رضوی صاحب کی تحریر سے ایک اقتباس اور نقل کرنا چاہونگا جس میں اس موضوع پر آپ کے کثیر المواد ہونے کا ثبوت موجود ہے آپ نے لکھا ہےکہ
''فاضل بریلوی قدس سرہ نے علم حدیث میں جو فقید المثال کارنامے انجام دیے ہیں وہ ابتک یکجا نہیں ہوسکے ہیں ۔حدیث کے وہ سرمائے آپ لانسداد مطبوع و غیر مطبوعہ کتابوں میں الگ الگ پھیلے ہوئے ہیں ۔ نیز احادیث کے جو حواشی آپ نے قلمبند فرمائے وہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے ہیں ''۔(تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ صفحۃ ٤١٢)
جہاں تک اس موضوع پر امام اہل سنت کی تصانیف کی تعداد کا سوال ہے اس میں آپ کے سوانح نگاروں میں کافی اختلاف ہے ۔ جس میں مولانا عبد المجتبیٰ رضوی کی رائے مین اس فن مین آپ کی دستیاب تصانیف کی کل تعداد چھیالیس (٤٦) ہے جس کی تفصیل آپ نے اپنی کتاب تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ صفحۃ ٤١٢میں تحریر کی ہے ۔
ماہنامہ ''قاری''امام احمد رضا نمبر کے صفحہ ٢٠٦ تا صفحہ ٣٠٨پر ''حدیث و اصول حدیث '' سے متعلق مولانا کی عربی اردو و مبیضخات، مسودات اور مطبوعات کی فہرست دی گئی ہے جن کی تعداد ترپن(٥٣)ہے ۔جن میں باعتبار زبان ان کی تعداد اس طرح ہے۔(عربی میں٤٥)(اردو میں :٥)(عربی اردو مشترکہ : ٣)ہے۔(معارف رضاپاکستان بحوالہ ماہنامہ قاری امام احمد رضا نمبر)
اور ڈاکٹر رضاء الرحمٰن عاکف سنبھلی نے اپنے تحقیقی مقالے میں حدیث اور اس کے متعلقات پر اعلی حضرت کی کتابوں کی جو فہرست پیش کی ہے ان کی مجموعی تعداد انسٹھ (٥٩)ہے جن میں گیارہ (١١)مطبوعہ اور اڑتالیس (٤٨)غیر مطبوعہ ہیں َ(روہیل کھنڈ کے نثری ارتقاء میں مولانا احمد رضا خاں کا حصہ )
امام احمد رضا کی اس فن و موضوع سے متعلق تصانیف کی یہ تعداد بجا طور پر انہیں اس فن کا امام و ماہر تسلیم کرنے کے لئے کافی ہیں ۔ واقعی انہون نے دیگر علوم کی طرح فن حدیث میں بھی قابل فخر کارنامے انجام دئیے ہیں ۔ آپ کے انہیں کارناموں کو دیکھتے ہوئے مولانا عبد المجتبیٰ رضوی کو تحریر کرنا پڑا ہے۔
''میں پورے وثوق و اعتماد کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ اس دور کے بڑے بڑے محدثین اور ارباب علم و فن بھی اگر انصاف و دیانت کے ساتھ ان تحقیقات عالیہ اور اس وسعت مطالعہ کو دیکھ پائیں تو اپنا سارا دعوائے فضل وکمال بھول کر محدث اکبر امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے تلمذ و شاگردی کو اپنی عین سعادت سمجھیں''۔(تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ صفحہ نمبر۴۱۲